Sunday 8 May 2016




مولانا سعید الرحمٰن جدون

ایک سچے عاشق رسول ﷺ
مولانا سعید الرحمٰن جدون چند سال پہلے

تحقیق و تحریر

 محمد عبید اللہ علوی
صحافی، مورخ، بلاگر اور انتھراپالوجسٹ
فون
0331-5446020
****************************** 

بات یہ نہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔ کہ جنازہ کا حجم کیا تھا یا اس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے کتنے وی وی آئی پیز شریک ہوئے ۔ْ۔۔۔۔۔۔؟ یہاں سفر آخرت کی بات ہے اور اس مقام پر دیکھنا یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ صاحب میت اس دنیا میں انسانیت سے لینے والا تھا یا وہ انسانیت کو کچھ ڈیلیور بھی کر گیا۔۔۔۔۔۔؟ ڈیلیوری کی ایک قسم صدقہ جاریہ اور ایک اس کی ذاتی زندگی بھی  ہے ۔۔۔۔ ایسا تو نہیں کہ ۔۔۔۔۔ اس کے اوپر جانے سے بہت سوں کی اس کی وجہ سے  تھرتھلی والی زندگی میں قرار آ گیا اور ان کو کہنا پڑا کہ ۔۔۔۔۔ چلو جی زمیں کا بوجھ ہلکا ہوا ۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ایسا شخص تھا کہ ۔۔۔۔۔ کئی ایک سے خونی رشتہ نہ رکھنے کے باوجود اس  کے عالم بالا میں جانے کی وجہ سے کئی ایک یتیم  بھی ہو گئے ۔۔۔۔۔۔۔ میرا خیال ہے کہ مولانا قاری سعید الرحمٰن جدون بے نوا کی وفات ۔۔۔۔ جہاں ۔۔۔۔۔۔ سرکل بکوٹ کا ایک بہت بڑا نقصان ہے وہاں ہی ۔۔۔۔ ایک سکالر کی موت، علم اور عالم کی موت بھی ہے ۔۔۔۔ مولانا سعیدالرحمٰن جدون بے نوا برادری کی افرادی تعداد کے حوالے سے کثرت میں تو نہیں تھے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی روحانی اولاد کی کثرت ان سے زیادہ  کسی کی بھی نہیں ہو سکتی، وہ عالم بے بدل تو تھے ہی، ہمعصر علما انہیں خطیب سرکل بکوٹ کہا کرتے تھے، ان کی شیریں بیانی کے وجہ سے وہ بلبل گلستان نبوت ﷺ بھی تھے، وہ جب بارگاہ نبوت ﷺ میں اپنی زباں سے نذرانہ عقیدت پیش کرتے تو حضرت حسان بن ثابتؓ کی یاد تازہ ہو جاتی، یہ تو ان کی زبان کا اعجاز تھا، ان کا قلم بھی خدمت رسول اقدس ﷺ میں وہی شعلہ نوائی کرتا اور تمام آداب، عجز و انکساری کے ساتھ قرطاس پر ثنائے رسول ﷺ رقم کرتا، ؎
 وہ نور سید کونین محو حمد یزداں تھا

مگر اک گوہر نایاب کے پردے میں نہاں تھا

ہزاروں سال سے محو ثنائے ذات وحدت تھا

حجاب در یکتا میں وہی نور نبوت تھا

وہ اسی نعت کے آخر میں فرماتے ہیں ؎

جو نور کبریا بھی ہوامام المرسلیں بھی ہو

شہہ کونین بھی ہو، رحمۃ اللعالمین بھی ہو

محمد نام ہو ہونٹوں پہ، رب اغفرلامت ہو
سعید بے نوا کے سر پہ اس کا ظل رحمت ہو
راولپنڈی: مولانا سعید الرحمٰن جدون کا آخری دیدار۔۔۔۔ 7مئی2016
مولانا سعید کی کتاب عرفان حقیقت در اصل ایک ایسی دستاویز ہے جس کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے جو لکھا اس کا سرچشمہ ذات نبوت ﷺ ہی تھی کیونکہ ادھر سے اگر اذن باریابی نہ ہو تو کچھ بھی ممکن نہیں ہو سکتا، عشق نبی ﷺ میں ان کے ڈوبے ہوئے اشعار اگر فنی نقطہ نظر سے دیکھے جائیں تو بھی ادبی معراج پر نظر آتے ہیں ساتھ ہی ساتھ اس معجز نما کلام میں دینی حرارت اور غیرت ملی بھی دکھائی دیتی ہے ؎
ادھر اک قوم خناس لعیں خاکے بناتی ہے

مسلمانان بحر و بر کی غیرت آزماتی ہے

ادھر اک ناگ ہے بیٹھا ہوا قومی خزانے پر

مگر بیٹھا ہوا ہے بحر ظلمت کے دھانے پر

یہ اس خناس کا تابع بھی ہے مرہون منت بھی

سمجھتا ہے اسی کے دم سے ہے میری قیادت بھی

جہاں خاکے ہیں، نبی کی شان کی توہین کی خاطر

جہاں خاکے ہیں نبی کی شان میں توہین کی خاطر

حکمراں سر بہ سجدہ ہیں اسی خناس کے در پہ

قیادت ہی جو زیر سایہ باطل نہ یوں ہوتی

دیار غیر میں قرآن کی توہین کیوں ہوتی

کیا اقبال نے جمہوریت کا جو خواب دیکھا تھا
یہی جمہوریت تھی کیا؟ یہی وہ خواب دیکھا تھا؟
مولانا سعید الرحمٰن جدون  کی راولپنڈی میں پہلی نماز جنازہ کا منظر
مولانا سعید الرحمٰن جدون سلف الصالحین کی نشانی تھے، انتہائی با وقار و بےباک، کبھی کسی فرعون کے سامنے جھکے نہ بکے، اپنی کتاب میں ایک خواب بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد مولانا عبدالرحمٰن جدونؒ حضرت پیر مہر علی شاہؒ سے بیعت شدہ تھے، خواب میں حضرت پیر فقیراللہ بکوٹیؒ کی زیارت نصیب ہوئی اور انہوں نے مولانا جدونؒ کو سرکل بکوٹ میں اشاعت و تبلیغ دین کا حکم دیا، اس کی تعمیل میں انہوں باسیاں یو سی بیروٹ میں مسلسل چار عشروں تک امامت و خطابت کے فرائض انجام دئے، ان کی اہلیہ بھی حضرت پیر بکوٹیؒ کی بھانجی تھی اور مولانا سعید الرحمٰن جدون کی والدہ ماجدہ، شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی وفات سے قبل باسیاں میں اپنے گھر کے پچھواڑے میں اپنی والدہ کے پہلو میں سپرد خاک ہونے کی وصیت کی اور اس وقت وہ اپنی والدہ کی بائیں طرف ابدی نیند سو رہے ہیں۔

روزنامہ آئینہ جہاں اسلام آباد ۔۔۔۔۔ 8مئی 2016

مولانا سعید الرحمٰن جدون بے نوا پیدائشی شاعر تھے، ان کی فیملی میں ان کی فرسٹ کزن فخرالنسا فخری بھی پنجابی کی شاعرہ تھیں، ان کے تایا مولانا عبدالحق جدون اپنے عہد کے نامور علما میں سے تھے اور انہوں نے پیدل حج کیا اور پھر اٹھارہ سال تک بیت اللہ شریف کے سائے میں اس عہد کے عرب علما سے قرآنی علوم میں سند فراغت حاصل کی، اپنے والد کی وفات کے بعد وہ اپنے انہی چچا کی صحبت میں رہے اور ان کے رنگ میں ہی رنگ گئے،مولانا سعید الرحمٰن جدون بے نوا چھ بھائی تھے جن میں سابق ٹیچر اور عالم دین مولانا محبوب الرحمٰن جدون، مولانا خلیل الرحمٰن جدون آف گوجر کوہالہ، مولانا حبیب الرحمٰن جدون آف راولپنڈی، ماسٹر خطیب الرحمٰن جدون، اور جمیل الرحمٰن جدون شامل ہیں جبکہ صاحب زادگان میں عقیل الرحمٰن جدون، پروفیسر فضیل الرحمٰن جدون، مولانا قاری تنزیل الرحمٰن جدون جو کلر سیداں میں جامعہ ہجویریہ سعیدیہ مظہرالاسلام کے ناظم اعلیٰ بھی ہیں، طفیل الرحمٰن جدون اور دو جڑواں بھائی فواد الرحمٰن جدون اور جواد الرحمٰن جدون شامل ہیں جبکہ دو صاحبزادیاں جو ایم فل اور ایم اے ہیں اسلام آباد کے کالجز میں لیکچرار ہیں۔
مولانا سعید الرحمٰن جدون نے دو پرس قبل جب اپنی کتاب کی اشاعت کا قصد کیا تو مسودہ سابق سجادہ نشین دربار عالیہ بکوٹ شریف حضرت صاحبزادہ پیر محمد اظہر بکوٹیؒ کو دکھایا تو انہوں نے مولانا بے نوا کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا تھا:۔۔۔۔۔۔ میں مولانا سعید الرحمٰن جدون بے نوا کو عاشق الٰہی اسول ﷺ سمجھتا ہوں، ایسے دور قحط الرجال میں دین کی ترویج و اشاعت اور ملک و ملت کیلئے قیمتی سرمایہ اور امید کی کرن ہیں، خطہ کوہسار کو یہ شرف حاصل ہے کہ یہاں مولانا یعقوب علوی بیروٹویؒ (بیروٹ) ، سید صادق بخاری (گھوڑا گلی، مری) اور علامہ سعید الرحمٰن جدون (باسیاں، یو سی بیروٹ) جیسے فصیح السان ، درد و سوز اور فہم و فراست سے مقالا مال جوہر قابل پیدا ہوئے۔۔۔۔۔۔۔ الخ
مولانا سعید الرحمٰن جدون کا فارسی نعتیہ کلام
مولانا کا تعلق پٹھان جدون خاندان کی سالار زئی شاخ سے تھا، انیسویں صدی کے اوائل میں جب ہزارہ میں طوائف الملوکی نے جنم لیا تو جدونوں سمیت یہاں کے قبائل ڈھونڈ عباسیوں، کڑرالوں، گکھڑوں، اعوانوں، علوی اعوانوں، سادات اور دیگر نے ڈوگرہ چنگیز صفت خونخوار جرنیل ہری سنگھ نلوا کا بے جگری سے مقابلہ کیا، اس عرصہ میں قبائل کی ہجرت بھی ہوئی ان میں جدون بھی شامل تھے، آج انہی جدونوں کی اولادیں اوسیاہ (مری)، باسیاں اور منہاسہ (تحصیل دھیر کوٹ، آزاد کشمیر) میں موجود ہیں اور اپنے اپنے علاقے کی خدمت اور تعمیر و ترقی میں مصروف ہیں۔
مولانا سعید الرحمٰن جدون کی نعتیہ کلام پر مبنی کتاب
آن لائن اس لنک میں مطالعہ فرمائیں
فرفان حقیقت

مولانا سعید الرحمٰن جدون بے نوا نے نہایت سادہ زندگی بسر کی اور مختلف اوقات میں مختلف مقامات پر دعوت تبلیغ کا کام کیا یہی وجہ ہے کہ آج ان کے قرآنی شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے اور وہ بھی مولانا کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں، کیا اسے صدقہ جاریہ نہیں تو اور کیا کہیں گے۔ اپنی زندگی کی بارگاہ رب العزت میں آخری التجا میں وہ فرماتے ہیں ؎

مسلمانوں میں مولا جذبہ ایثار پیدا کر

خدایا! ان میں جوش حیدر کرارؓ پیدا کر

مسلمانان عالم کو ہے پھر باطل نے للکارا

الٰہی! بو عبیدہؓ سا سپہ سالار پیدا کر

صلیبی در پئے آزار ہیں، دین نبوت ﷺ کے

کوئی سلطان ایوبیؒ سا اک جرار پیدا کر

عقابی روح کو بیدار کر دے نوجوانوں میں

خدایا! ان میں حب سید ابرارﷺ پیدا کر

زمانہ منتظر ہے پھر قلم حرکت میں آ جائے

کوئی مرد قلندر کاتب اسرار پیدا کر

الہی! قطب دوراں مہر علی شاہؒ کے توسل سے

کوئی غازی علم دیں صاحب اسرار پیدا کر
اپنی آخری خواہش کا بارگاہ ایزدی میں اس طرح درد مندی سے اظہار کرتے ہیں ؎
نہ ہو دنیا میں باطل کا ذرا سا بھی نشاں باقی

خدایا! ساری دنیا میں ہوں ، اسلامی نشاں باقی

خداوندا! طفیل غوث اعظم شاہ جیلانیؒ
سعید بے نوا کو بخش دے از فضل ربانی
روزنامہ آئینہ جہاں اسلام آباد، منگل 10 مئی 2016
مولانا سعید کے مشن کے وارث ... مولانا قاری تنزیل الرحمٰن جدون

مولانا سعید کے آخری ایام

راولپنڈی: مولانا سعید بستر مرگ پر بھی ذکر میں مصروف

 سول ہسپتال راولپنڈی میں حکیم ڈاکٹر محمود احمد جدون قادری
 آف اوسیاہ مری عیادت کرتے کر رہے ہیں
طارق جاوید جدون اور اعجاز احمد جدون مولانا سعید کی ہسپتال میں عیادت کر رہے ہیں
مولانا سعید کا سفر آخرت
 
باسیاں ۔۔۔۔۔ مولانا سعید کے جنازے میں شریک ان کے عقیدتمند


باسیاں ۔۔۔۔۔۔۔ مولانا سعید کی اپنی والدہ کے پہلو میں تربت

حوالہ جات، مصادر و مراجع
 جدون قبیلہ کی تاریخ ۔۔۔۔۔۔ دستاویزی فلم

سپاس تعزیت

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ۔۔۔۔۔
  میں اپنے ان تمام عزیزوں، دوستوں اور احباب کا کا تہہ دل سے مشکور و ممنون ہوں جنہوں نے میرے والد محترم کی وفات پر دکھ کی اس گھڑی میں ہمارے اور ہمارے اہل خانہ کے ساتھ  فون، فیس بک، ای میل، ایس ایم ایس یا پھر ہمارے گھر آ کر ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا، اللہ پاک آپ سب کو جزائے خیر دے اور ان کی دعائوں کو قبول فرمائے ۔۔۔۔۔۔۔ ہماری بھی اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ جس جس کے والدین فوت ہو چکے ہیں ان کی بحشش فرمائے، جن کے والدین زندہ ہیں ان کا سایہ اپنی اولاد کے سروں پر ہمیشہ ہمیشہ قائم و دائم رکھے ۔۔۔۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین
 طالب دعا
جواد جدون جیدی خان اینڈ برادرز
باسیاں، یو سی بیروٹ
تحصیل و ضلع ایبٹ آباد 

خراج عقیدت

فکر ِ اقبال اور سعیدِ بے نوا
تحریر : پیر سید سعادت علی شاہ سجادہ نشین دربار ِ عالیہ چورہ شریف
*****************
ٰخطۂ کوہسار اور ہزارہ کی نامور اور علمی شخصیت حضرت علامہ مفتی محمد سعید الرحمن جدون دو ہفتے قبل ہمیں داغِ مفارقت دے گئے آپ کا تعلق ایک علمی گھرانے سے تھا ۔ادبی ذوق رکھنے کے ساتھ ساتھ خود بھی ایک ادبی شخصیت تھے اور سعیدِ بے نوا آپ کا تخلّص تھا ۔حضرت مولانا مفتی محمد سعید الرحمن جدون کی نظم ونثر پر فکر ِ اقبال کس قدر غالب رہی اس کا باریک بینی سے جائزہ لینے سے قبل فکرِ اقبال پر ایک نظر ڈالنا ضروری سمجھتا ہوں کیوں کہ کلا مِ اقبال کا بغور اور عمیق النظری سے مطالعہ کرنے سے ایک بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو تی ہے کہ اقبال ؒ مولانا رومؒ سے بہت متاثر تھے او رایسا لگتا ہے کہ فلسفۂ خودی انہوں نے مولانا رومؒ سے مستعار لیا ہے ۔بس فرق صرف یہ ہے کہ مولانا روم ؒخودی کے نقائص بیان کرتے ہوئے اسے تکبر و غرور کی علامت قرار دیتے ہیں اور قرب الٰہی کے لیے رکاوٹ گردانتے ہیں جبکہ اقبال ؒ خودی کو ایک متاعِ بے بہا سمجھتے ہوئے مسلمانوں کے لیے جزو لا ینفک قرار دیتے ہیں ۔مولانا روم ؒ خودی کو زہرِ قاتل قرار دیتے ہوئے رقمطراز ہیں ؎
تو خود ی خود ازیں راہ بیک سوا فگن
کہ ہمہ وصل و تجلی و شہودد ست لِقا

(تو اپنی خودی اس راہ سے ایک طرف ہٹا دے تو پھر تجھے خدا کا وصل ،تجلی ،دیدار اور جمال سب کچھ مل جائیگا)
پس خودی را سر بر  با ذوالفقار
بے خودی شوفانی و درویش دار

( پس خودی کا سر ذوالفقار سے کاٹ دے خودی ترک کر کے فانی اور درویش کی طرح ہو جا )جبکہ اقبال ؒ خودی کے حق میں رطب اللسان ہیں
خودی  کو کر  بلند اتنا  کہ ہر تقدیر  سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

اقبال ؒ خودی کو قربِ الٰہی کا ذریعہ قرار دیتے ہیں اور مولانا روم ؒ ذاتِ الٰہی سے دوری کا سبب قرار دیتے ہیں ۔ بہر حال یہ
 استاد  و  شاگرد کا معاملہ ہے کیوں کہ اقبالؒ مختلف مواقع پر مولانا روم  ؒ کو اپنا روحانی استاد قرار دیے چکے ہیں ۔میرا مقصد یہاں اس اختلاف پر بحث کرنا نہیں بلکہ فکرِ اقبال کے اصل موضوع عشقِ مصطفی  ﷺ  کو زیرِ بحث لانا ہے کیوں کہ یہ وہ مقام ہے جہاں اقبال ؒ اور مولانا روم ؒ ایک صف میں کھڑے نظر آتے ہیں کیو ں کہ خواجۂ ہند  ؒ نے کہا تھا  ’’ہر کرا عشق نیست ایمان نسیت‘‘مولانا روم ؒ کہتے ہیں  ؎
عشق زندہ در  روان و در بصر
ہر دمے  باشد  ز غنچہ  تازہ تر

آگے چل کر فر ماتے ہیں  ؎
عشق   بر مُردہ   نبا شد   پائیدار
عشق را  بر  حیئے جاں افزائے دار

عاشقوں کو کسی اور دیس کا باسی سمجھتے ہوئے کہتے ہیں
مذہب عشق از ہمہ دیں یا جد است
عاشقاں را مذہب و ملت جدا ست

(عشق کا مذہب تما م دینوں سے الگ ہے اور عاشقوں کا مذہب اور ان کی قوم سب سے جدا ہے )
حافظ شیرازی عشق کا ٹھکانہ یہ بتاتے ہیں کہ
حریم عشق را درگۂ لبے بالا تراز عقل است
کسے آں آستاں بو سد کہ جاں در آستیں دارد

(عشق کی درگاہ عقل سے بہت بلند ہے اور وہی اس کی چوکھٹ چوم سکتا ہے جو جان ہتھیلی پر رکھ لیتا ہے )
اسی مضمون کو اقبال ؒ یوں آگے بڑھاتے ہیں ؎
عشق سلطان است و بر ہان مبیں
ہر  دو  عالم  عشق  را زیرِ  نگیں

(عشق بادشاہ ہے اور کھلی دلیل ہے اور دونوں عالم عشق کے تصّرف میں ہیں )اقبال ؒ آگے چل کر عشق کی مزید پہچان بتاتے ہوئے کہتے ہیں
عقل در پیچاک اسباب و عمل
عشق  چوگاں  باز  میدانِ عمل
عقل را سر مایۂ از بیم و شک است
عشق را عزم و یقین لا ینفک است

(عقل اسباب و عمل میں الجھی ہوتی ہے اور عشق میدانِ عمل کا کھلاڑی ہے ۔عقل کا سر مایہ خوف اور شک ہے اور عشق سے عزمِ یقین کبھی الگ نہیں ہو سکتا )
اس ساری بحث کا مقصد یہ ہے کہ عشق پر اقبال ؒ اسی نظریہ اور پیغام پر کا ر بند ہیں جو مولانا روم ؒ اور حافظ شیرازی نے دیا تھا ۔پھر عشق کا رخ متعین کرتے ہوئے امت کو بتاتے ہیں
ہر کہ عشقِ مصطفی  ﷺ  سامانِ اوست
بحر   و   بر در گوشۂ   دا مانِ   اوست

(جس کے سامان میں عشقِ مصطفی  ﷺ  شامل ہو پوری دنیا (بحر و بر ) اس کے دامن میں آجاتی ہے )یہاں پر پہنچ کر جب میں سعیدِ بے نواؒ کے کلام کا اجمالی جائزہ لیتا ہوں تو یہ حقیقت عیاں ہو تی ہے کہ آپ ؒ کے کلام پر فکرِ اقبال کا یہ پہلو ہر طور غالب رہا اور آپ ؒ اقبال ؒ کی اس گرفت میں ہمیشہ بندھے رہے گو کہ آپؒ کے اندازِ تحریر پر حفیظ جالندھری ؒ کا اثر غالب رہا لیکن عشقِ مصطفی  ﷺ  میں آپ ؒ اقبال ؒ کے معتقد نظر آتے ہیں , چنانچہ اقبال ؒ کہتے ہیں
ہر  کجا  بینی  جہانِ   رنگ   و   بو
آں   کہ   خاکش   بر ویِد  آرزو
یاز نور ِ مصطفی  ﷺ  اور ا  بہا  ست
یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفی  ﷺ  است

(جہاں بھی ہنگامۂ رنگ و بو ہے و ہ یا تو نورِ مصطفی  ﷺ  سے جلوہ بد اماں ہے یا ہنوز تلاشِ مصطفی  ﷺ  میں گردش کر رہا ہے ، اسی مضمون کو سعیدِ بے نوا ؒ  یوں آگے بڑھاتے ہیں ؎
وہی مہر نبوت،باعثِ تخلیق آدم ؑ تھا
حقیقت میں وہی مقصودِ تخلیق دو عالم تھا
وہی تھا گو ہر مطلوب، مخلوقاتِ عالم میں
وہی تھا مہرِ تاباں ،انبیاء کی بزمِ انجم میں

جہاں اقبال ؒ لا الہ کو عنایت مصطفی  ﷺ  سمجھتے ہیں وہیں سعیدِ بے نوا الااللہ کو انتہائی خوبصورت انداز میں عاشقانِ مصطفی ﷺ کا اثاثہ سمجھتے ہیں لا الہ الااللہ پر اتنا خوبصورت جوڑ آج تک میری نظر سے نہیں گزارا چنانچہ اقبالؒ کہتے ہیں؎
بچشم  من نگہِ آور دہُ تست
فروغِ  لا الہ آوردہِ تست

(میری آنکھوں کو یہ نگاہ آپ  ﷺ  کی عطا کی ہوئی ہے اور ان میں لا الہ کی روشنی بھی آپ  ﷺ  کی دی ہوئی ہے )اور اسی مقام پر سعیدِ بے نوا لا الہ الااللہ کی گرہ باندھتے ہوئے کہتے ہیں
آنکہ  بد  باطن  چہ  داند سرّ  الااللہ را
ایں علم آموخت تو از عاشقانِ مصطفی  ﷺ

اقبال ؒ چہرہ ٔ مصطفی  ﷺ  دیکھنے کے لیے یوں عرض گزار ہیں
دو چارم کن  بہ  صبحِ  من  رآنی
شبم  را  تا بِ مۂ  آوردہِ  تست

(مجھے رآنی کی صبح سے فیض یاب فر مائیے ۔من رانی فقدر الحق کی طرف اشارہ ہے کہ یارسول اللہ  ﷺ  جس نے آپ کو دیکھا اس نے جلوۂ خدا دیکھ لیا اور رآنی کا صیغہ اپنے سے منسوب کر کے کہتے ہیں مجھے جلوہ دکھایئے اس لیے کہ میری رات کی تاریکی کو دور کرنے والے چاند کی چاندنی آپ  ﷺ  کی عطا کر دہ ہے )مسلمانوں کی حالتِ زار پر دلِ شکستہ ہو کر اقبال ؒ بار گاہ ِ رسالت  ﷺ  میں یو ں عرض گزار ہیں
مسلماں آں فقیرے کچ کلا ہے
امید  از  سینۂ  او  سوز  آ ہے
دلش  نالد   چرا   نالد   نداند
نگاہے یا رسول اللہ  ﷺ  نگاہے

(مسلمان جو اب فقیر ہے اس میں کج کلاہی کی آن باقی ہے اس کے سینے سے اب بھی محبت کی آہ نکلتی ہے اس کا دل رو رہا ہے کیوں روتا ہے اسے مطلق معلوم نہیں اے رسول اللہ  ﷺ  اس پر لطف و کرم کی نگاہ ڈالیے کہ اس کے دل کی گرہ کھل جائے)اسی مقام پر محسن نقوی نے بھی کہا تھا
بخشش تیری آنکھوں کی طرف دیکھ رہی ہے
محسن تیر ے دربار میں چپ چاپ کھڑا ہے

حیران اس بات پر ہوں کہ جہاں اقبالؒ من رآنی کی صبح سے ہمکنار ہونے کے لیے بے تاب ہیں اور نگاہے یارسول اللہ  ﷺ  کی صدا لگا رہے ہیں وہیں اپنے نامۂ اعمال کو چشمِ مصطفی  ﷺ  سے پوشیدہ رکھنے کے لیے ملتجی ہیں اور نامۂ اعمال کو باعث ِ ندامت سمجھتے ہوئے بارگاہِ ایزدی میں یوں ملتمس ہیں
تو غنی از ہر دوعالم من فقیر
روزِ محشر عذر ہائے من پذیر
گر  تو می بینی حسابم ناگزیر
از نگاہِ مصطفی  ﷺ  پنہاں بگیر

مگر سعید ِ بے نوا ؒرخ والضحیٰ کو دیکھنے کے لیے کس قدر بے تاب ہیں اور ربِّ کائنات سے کیسے کیسے انتظام و انصرام کے لیے درخواست گزار ہیں
پیشِ رو گرمی شود  نورِ خدا
تابہ بینم جلوۂ  خیر الوریٰ
چوں نگہ افتد بر خیر الانام
تا بگوئم الصلوٰۃ  والسلام

جان کنی کے لمحات قریب ہیں اور بے ساختہ علامہ اقبالؒ یہ رباعی با ر بار پڑھتے ہیں
سرودِ رفتہ باز آید  کہ نہ آید
نسیم  از حجاز  آید  کہ نہ آید
سر آمد روز گارے ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید  کہ نہ آید

اقبال ؒ منتظر ہیں اور سعیدِ بے نو اؒ  ملتمس ہیں اورمالکِ لم یزل سے یوں عرض گزار ہیں
یا  الٰہی  بہر  نور  کبریا
روحِ ماچوں می شود از تن جدا
چوں بیائید روح ما از تن بروں
کن غلام زمرۂ لا یحزنوں

اس ذات والا صفات سے دونوں کا عشق انتہا پہ تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ سعید ِ بے نواؒنے اپنے کلام میں کلا م ِ اقبال ؒ کی منظوم تشریح کر کے اس ملت کے لیے ایک بے بہا خزانہ چھوڑا ہے اور عشقِ مصطفی  ﷺ  کو ہر پہلو سے اجا گر کر کے امت ِ مسلمہ کو راہ متعین کرنے کے لیے ایک عظیم نظریہ پیش کر دیا ہے حضرت مولانا مفتی محمد سعید الرحمن جدون ہزاروی ؒ نے بہت ہی خوبصورت انداز میں اپنی قلبی کیفیات کو اشعار کے سانچے میں ڈھالا ہے اور اپنے طور پر انہوں نے بہت خوبصورت نعتوں کا گلدستہ اس امت کو دیا ہے دراصل ہر دور میں سر کا ر ِ مدینہ  ﷺ  کی مدحت بیان ہوتی رہی اور ہوتی رہے گی لیکن ان کے اوصافِ حمیدہ ختم نہیں ہوں گے کیوں کہ سر کار ِ مدینہ  ﷺ  کی جتنی بھی شان بیان کی جائے وہ کم ہے اور ہم مقامِ  مصطفی  ﷺ  سے واقف نہیں ہیں غالب نے کہا تھا
غالب  ثنائے  خواجہ  بہ یزداں  گز ا شتیم
کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد  ﷺ  است

اور سعید ِ بے نواؒ بھی اس بات کو اردو میں یوں بیان کرتے ہیں
حبیبِ  ﷺ  کبریا کی شان ذات ِ کبریا جانے
سعید ِ بے نواؒ   شان شہ کونین  ﷺ  کیا جانے

*************************
آہ ۔۔۔۔۔ علامہ مفتی محمد سعید الرحمن جدون ہزاوریؒ
تحریر:ڈاکٹر محمود احمد جدون قادری چشتی 
 *************************
دستورِ دنیا ہمیشہ یہ رہا ہے کہ ڈوبے ہوئے سورج کاماتم کرنے کی بجائے مشرق سے جلوہ افروز آفتابِ تازہ پر نظر رکھی جائے لیکن معاشرہ یہ بھول جاتا ہے کہ مستقبل کے لیل و نہار کا موسم ماضی و حال کی آب و ہوا سے پھوٹتا ہے ۔خطۂ کوہسار میں  عشقِ مصطفی  ﷺ  کا آتش فشاں دھکانے میں اور عشقِ مصطفی  ﷺ  کے پودے کی پرورش اور افزائش میں علامہ مفتی محمد سعید الرحمن جدون ہزاوری کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔گو کہ وہ عالمِ وجود سے جانبِ برزخ محو پرواز ہو گئے 8 مئی 2016 کو باسیاں گائوں کے درو دیوار اور پتھر بھی روئے ہوں گے کہ یہ خطہ ایک عظیم عاشقِ رسو ل  ﷺ  سے محروم ہو گیا 8 سال کی عمر میں یتیمی کا داغ اپنے ماتھے پہ سجانے والا یہ عظیم عاشقِ رسول  ﷺ  لڑکپن میں ہی حیدر آباد سند ھ میں حصولِ علم کے لیے مدرسہ میں داخل ہو تا ہے تو چند ہی سالوں میں تخصص فی الفقہ کی سند سے نواز دیا جاتا ہے اور خواب میں غوثِ زماںؒ حضرت پیر فقیر اللہ بکوٹی رحمتہ اللہ علیہ کی بشارت کے عین مطابق ٹھیک چا لیس سال تک باسیاں اور گر دو نواح میں اپنی پر جوش خطابت سے لوگوں کے دلوں میں عشقِ مصطفی  ﷺ  کی شمع کو روشن کیا ان کے جنازے پر یہ فقرہ زبانِ زد ِ عام تھا" اُستاد جی سے جب بھی ملاقات ہوئی انہوں نے ہمیشہ اللہ اور اس کے رسو ل  ﷺ  کی بات کی اور کبھی دنیا داری اور سیاسی معاملات پر گفتگو نہ کی " وہ دنیا داری کی بات کرتے بھی کیسے ؟کیوں کہ جس کے رگ و پے میں عشقِ مصطفی  ﷺ  سرایت کر چکا ہو وہ کیسے دنیا داری کی بات کرے ۔محبتِ رسول  ﷺ  نے علم و حکمت کا دریا آپ کی شخصیت میں مو جزن کر دیا تھا خطیب ایسے کہ انتخابِ الفاظ ان کا فن اور ایک جملے میں سمندر بند کرنا ان کی پہچان تھی میں دعوے سے کہتا ہوں کہ یہ مرد ِدرویش کسی اور علاقے کی زینت بنتا تو اس کا طوطی پوری دنیا میں بولتا لیکن شاید وہ جانتے تھے کہ اس علاقے کو میری زیادہ ضرورت ہے ہزار ہا مخالفت کے باوجود نہایت کسمپرسی  میں اپنے علاقے میں دعوت و تبلیغ کے ذریعے عشقِ مصطفی  ﷺ  کی شمع کو روشن رکھنا ان کا خاصہ تھا کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ عصرِ رواں کا فتنہ اور دورِ حاضر کی سازش کیا ہے ؟عالمِ اسلام کی کشمکش دانشِ افرنگی کی فتوحات اور مسلمانوں کے باہمی اختلافات نے ان پر یہ عیاں کر دیا تھا کہ عصرِ حاضر (صیہونیت ،عیسائیت، ہندومت ،اشتراکیت، لادینیت ،سیکولرازم ،خارجیت )کی ہر کہیں یہ کوشش ہے کہ وابستگانِ دامنِ نبوی  ﷺ  کو بیگا نۂِ جمالِ محمد  ﷺ  کر دیا جائے بقول اقبال ؒ
عصرِ ما ،   ما ر ا  زما   بیگانہ  کرد
از جمالِ مصطفٰے  ﷺ بیگانہ کرد
یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمدی  ﷺ اس کے بدن سے نکال دو

عشقِ رسول  ﷺ  ان کے نزدیک تصورِ حیات تھا اور وہ اسے حاصلِ کائنات سمجھتے تھے عموماََ کہا کرتے تھے تخیل کا سارا زور اور فکر کی بھر پور رسائی ذاتِ مصطفی  ﷺ  کی ثنا اور ذکرِ جمیل کے لیے ہے ۔جب کبھی بھی ذکرِ رسول  ﷺ  ان کے لبوں پر جاری ہوا تو محفل پر بے خودی و سرخوشی اور والہانہ جذب و کیف کا عالم طاری ہوا اور محبتِ رسول  ﷺ  سے مزین علم و حکمت کے گوہرِ آبدار دریا ئے تخیل بر سرِ منبر بہاتے رہے اسلو ب و بیاں کی رعنایاں جلا ل وجما ل بد اماں ہو گئیں کہیں واردات میں اوصافِ رسالت پنا ہ سے زبان و قلم کو شرف بخشا اور کہیں ذاتی کیفیات و تاثرا ت میں ذکر ِرسول  ﷺ  کی حلاوت سے عشق ومستی کی دنیا آباد کی ان کی تحریروں اور منظوم کلام میں جہاں کہ ملت کے ادبار و انحطاط بے حسی و بے عملی کا شکوہ دامن گیر ہے وہاں بارگاہ رسالت سے نگا ہِ کرم کی التجا بھی ہے اپنی کتاب ’’عرفان حقیقت‘‘میں رقمطراز ہیں ۔
نفاق  آلود ہ  دل ہے  اور  قبا  پر ہیز گاری  کی
خلوصِ  دل سے عاری  ہے دعوت دین داری کی
شریفوں  پر جہاں  ظلم و ستم ،  تہمت تراشی ہے
گریباں  د یکھ لیں  کہ کہا  یہی خونِ  حجازی ہے

***********
خلافِ سنت ِ خیر الواریٰ صورت بھی سیرت بھی
جہاں ہنگامۂ  رقص وسرور و سود  و  رشوت بھی
کسی  کا حق  اگر مثقال کا  ذرہ بھی کھائو تم
حکم  یہ ہے  کلو من طیبٰت مار قنٰکم

ایک مقام پر عجز و انکساری کی انتہا پہ پہنچ کر اپنے آپ کو خاک قرار دیتے ہوئے فیضانِ نسبت سے اوجِ ثریّا پر پہنچ جاتے ہیں
اے سعیدِ بے نوا تو خاک نعلینِ رسول
باعث ِعز و شرف ایں نعت گر افتد قبول

تاجدارانِ بکوٹ شریف ؒسے ان کی والہانہ محبت تادم آخر قائم رہی اور بکوٹ شریف کا ایسا معتقد شاذو ناذر ہی کہیں ملے گا حضرت خواجہ پیر فقیر اللہ بکوٹی  ؒکا نام ہی ان کے لیے سند ہو تا تھا اپنے آخری ایامِ علالت میں سول ہسپتال راولپنڈی میں مجھ سے یوں کہہ رہے تھے کہ حضرت صاحبؒ کے مزار پر جا کر میرے لیے بخشش کی دعا کر نا ،آستانہ عالیہ قادریہ بکوٹ شریف سے ان کی محبت اس شعر میں عیاں ہوتی ہے ۔
صلیبی در پئے آزار ہیں دینِ نبوت کے
کوئی سلطانِ ایوبی  ؒسا اک جرار پیدا کر
عقابی روح کو بیدار کرے دے نوجوانوں میں
خدایا ان میں حب ِ سیدِابرار  ﷺ  پیدا کر
دعا ہے حضرت خواجہ فقیر اللہ کے روزے پر
میرے دل میں بھی ان کے فیض کے انوار پیدا کر

ان کے صاحبزادے علامہ قاری تنزیل الرحمن اپنے والد محترم کے نقشِ قدم پر عمل پیرا ہیں ملک پاکستان اور باہر بھی عشق مصطفی  ﷺ  کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں دعا گو ہوں کہ رب کائنات انہیں کام حقہ اپنے والد محترم کے مشن پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فر مائے اور صحیح معنوں میں انہیں جانشین بنائے (آمین)

*****************************


 
 
<NEXT>


No comments:

Post a Comment